دُنیاءے اسلام کے زوال کی بڑی بڑی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ فقہی مساءل میں اءمہءِ فقہ کا باہمی اختلاف بھی ہے۔ اگرچہ ان اءمتہ اربعہ نے فقہی مساءل کا فیصلہ قرآن اور احادیث کی روشنی میں اپنی اپنی عقل اور علم کے مطابق کیا تھا اور جتنے بھی اختلافات تھے سب فروعی تھے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا عوام کسی ایک امام کی تقلید میں پُختہ تر ہوتے گءے۔ یہاں تک کہ ساری ملت حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی چار فرقوں میں تقسیم ہو گءی اور آگے چل کر یہ اختلافات اِس قدر شدید ہو گءے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو ناجی اور دوسروں کو ناری سمجھنے لگا۔ مرورِ ایام سے ان فرقوں میں اور شاخیں نکل آءیں اور تعداد روایتی بہتر فرقوں سے بھی کہیں زیادہ ہو گءی۔ ان میں سے بہت سے فرقے تو ختم ہو گءےاور بہت سے اب بھی باقی ہیں۔ تماشہ کی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ یہ اختلافات بالکل فروعی اور بہت معمولی ہیں لیکن آپس کی مغاءرت بلکہ منافرت اس حد تک پہنچ گءی ہے کہ ایک فرقہ کا آدمی دوسرے فرقے والوں سے بات کرنا بلکہ ان کی مساجد میں نماز تک پڑھنا بھی گناہ سمجھتا ہے۔ اکثر مسجدوں کے دروازوں پر کتبے لگے ہوءے ہیں کہ یہ مسجد احناف ہے، یہ مسجد اہل حدیث ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوءی مصیبت کا مارا غلطی سے کسی دوسرے فرقے کی مسجد میں چلا جاءے تو پٹاءی تو شاید نہ ہو لیکن شرمندہ اور ذلیل ہو کر وہاں سے نکلنا ضرور پڑتا ہے۔ اب کوءی بتاءے کہ ان مساجد کو مساجدِ ضرار نہ کہا جاءے تو کیا کہا جاءے۔ رونا تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں اِس عناد و فساد اور تفریق و تخریب کا باعث علماءے دین کی وہ جماعت ہوءی اور اب بھی ہے جس کا کام، پیشہ بلکہ فرض منصبی ہی مسلمانوں کو متحد کرنا، متحد رکھنا اور صراطِ مستقیم پرچلانا تھا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وارث ٹھہرایا اور خدا نے جن کی بابت فرمایا؛

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔
[ترجمہ] ”اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیےجو لوگوں کو خیر کی طرف بلاءے، اوامر کا حکم دے اور نواہی سے روکے۔”

مگر افسوس اس جماعت نے اپنا فرض ادا نہ کیا اور امت مسلمہ پارہ پارہ ہو کر رہ گءی۔

چو کفر از کعبہ برخیز و کجا ماند مسلمانی

اِدھر تو یہ علماءے دین تھے دوسری طرف ان کے برخلاف صوفیاءے کرام کی جماعت تھی جن میں بہتر سے بھی کہیں زیادہ سلسلے اور خانوادے موجود تھے اور ہر سلسلہ میں ذکروفکر، ریاضت و مجاہدہ اور تزکیہ اخلاق و تصفیہ قلب کے طریقے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے لیکن ان میں نہ کوءی عناد و فساد تھا نہ تفریق و تخریب۔ سب آپس میں بھاءیوں کی طرح رہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے دِلی محبت کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ”دو بادشاہ در یک اقلیم نہ گنجد و دہ درویش در یک گلیم بہ خسپند”۔ لیکن یہ حالت چھٹی صدی ہجری کے آخرتک رہی۔ اس کے بعد تصوف اسلامی میں ایک ایسا عقیدہ ظہور پذیر ہوا جس نے صوفی حضرات کو بھی دو جماعتوں میں بانٹ دیا۔ اس عقیدے کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ تصوف کو اس عقیدے سے جناب ابن عربی رحمتہ االہ علیہ نے متعارف کرایا تھا۔ حضرت ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے یگانہ روزگار بزرگ تھے۔ وہ ۲۹ جولاءی ۱۱۶۵ء مطابق ۵۶۰ھ میں اندلس کے شہر مُرسیہ میں پیدا ہوءے۔ آٹھ برس کی عمر میں مُرسیہ سے اشبیلیہ چلے گءے۔ وہاں ۳۷، ۳۸ برس کی عمر تک رہنے اور اکتساب علوم کے بعد مشرقی ممالک کی سیاحت کے لءے چل دیءے۔ مصروعراق، شام اور دوسرے ممالک کی سیاحت کے بعد مکہ معظمہ پہنچے۔ وہاں عرصہ تک قیام کرنے کے بعد ”فتوحات مکیہ” لکھی۔ وہاں سے پھر اپنے وطن کی طرف مراجعت کی لیکن وطن نہ پہنچے بلکہ راستے ہی سے پھر واپس دوسرے ملکوں کی سیر کرتے ہوءے مصر آءے۔ اس وقت تک آپ کی کتاب فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکم بہت مشہور ہو چکی تھیں اور اس زمانہ کے علماءے دین اور صوفیاءے کرام کے زیر نظر تھیں۔

چونکہ انہی کتابوں میں آپ نے وحدت الوجود کا مسءلہ تحریر فرمایا تھا اور وہ قرآن کی تعلیم سے ٹکراتا تھا۔ اس لءے بہت سے علماءے دین مخالف ہو گءے چنانچہ یہ جب مصر پہنچےتو علماءے کرام نے ان کے کفر کا فتویٰ دیا اور سلطانِ مصر نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ یہ بات ان کو بھی معلوم ہو گءی۔ وہ چپکے سے مصر سے نکل کر دمشق پہنچ گءے۔ باقی عمر وہیں درس و تدریس اور وعظ و نصیحت میں کزاری۔ آخر ۱۲۴۰ء مچابق ۶۳۸ھ میں وفات پاءی اور وہیں دفن ہوءے۔

حضرت ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ بہت عظیم المرتبت عالم، ولی کامل اور چوٹی کے عارف باللہ تھے اور اس زمانہ کے علوم متداولہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے بہت بڑے مفکر اور فلاسفر بھی تھے۔ تخلیق کاءنات پر ازروءےفلسفہ و تصوف دونوں کے لحاظ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ ساری کاءنات ایک وجود ہے اور یہی خدا ہے اور اس میں جو کثرت نظر آتی ہےیعنی جو لاکھوں اشیاء ظاہر ہوتی اور پھر اسی میں غاءب ہو جاتی ہیں یہ سب اسی ایک وجود کی مختلف شانیں یا تجلیات ہیں اور یہ سب اسی وجود کا عین ہیں یعنی خدا ہیں۔ اس بات کو ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی شد و مد سے بیان اور ثابت کیا ہے اور اصرار کیا ہے کہ یہی حقیقت ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ جو کچھ لکھا ہے اپنے مشاہدہءروحانی کی بناء پر لکھا ہے۔

اب اگر ان کے اس دعویٰ پر غور کیا جاءے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ جو کچھ ہے خدا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ یونہی رہے گا۔ گویا مخلوق کا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات قرآن کی آیاتِ بینات کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن میں تو اللہ تعالیٰ نے بیسیوں جگہ فرمایا ہے کہ میں خالق ہوں اور میرے سوا جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب مخلوق ہے اور میں نے ہی اسے پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماءے دین نے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا۔ اب ایک طرف تو ان کا یہ دعویٰ ہے اور دوسری طرف ان کا ورع و تقویٰ، شریعت و سنت کی پابندی اور ان کی ذات سے کرامات کا ظہور متقاضی تھا کہ ان کو ولی اللہ تسلیم کیا جاءے چنانچہ علماءے دین اور صوفیاءے کرام میں دو جماعتیں پیدا ہو گءیں ایک ان کی تکفیر کرتی اور دوسری ان کو ولی کامل مانتی تھی یہ صورت آج تک باقی ہے۔

جناب ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے شروع میں ہی لکھ دیا ہے کہ ”جو شخص میری کتاب میں دی ہوءی اِصطلاحات اور منازل و مقامات سے واقف نہ ہو وہ ہر گز اس کتاب کو نہ پڑھے ورنہ ایمان خراب ہونے کا خطرہ ہے”۔ لیکن ایسا لکھ دینے سے کیا ہوتا ہے۔ عوام کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ لوگوں نے کم علمی کی وجہ سے ان کی کتابوں کو نہیں تو ان کتابوں کی تشریحات جو دوسروں نے کی تھیں اُن کو خوب مزے لے لے کر پڑھا اور بزعمِ خود سمجھ لیا کہ ہم نے حقیقت کو پا لیا ہےیعنی یہ کہ جو کچھ موجود ہےیہی خدا ہے اور اِس کے علاوہ خدا اور کوءی نہیں۔ مطلب یہ کہ ہم بھی خدا ہیں۔ نعوذ باللہ۔

[لطیفہ] میرے ایک دوست جو فلسفہ کے ایم اے تھے ایک دن مجھ سے وحدت الوجود پر گفتگو کر رہے تھے جب میں نے اُن کو ہر طرف سے لاجواب کر دیا تو کہنے لگے کہ ”جو کچھ بھی ہومجھ کو تو اگر ایک سیکنڈ کے لءے بھی یقین آ جاءے کہ میں خدا نہیں ہوں تو میں فوراّّ مر جاءوں”۔ میں نے جواباّّ کہا کہ سبحان اللہ آپ بڑے اچھے خدا ہیں کہ آپ کو موت بھی آ سکتی ہے۔

حضرت ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ کے موافق اور مخالف لکھنے والے سینکڑوں ہی تھے لیکن خلاف لکھنے والوں میں امام ابن تیمہ رحمتہ اللہ علیہ اور امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ دو بزرگ ایسے تھے جن کی تحریریں آج بھی بطور سند پیش کی جاتی ہیں لیکن ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ کے قلم اور طرزِنگارش و استدلال میں وہ زور تھاکہ اس کے آگے کسی کی پیش نہ گءی اور نظریہ وحدت الوجود کو رفتہ رفتہ تمام اسلامی ممالک کے بہت سے علماء اور شیوخ نے بہ حیثیت ایک عقیدے کے قبول کر لیا۔ یہاں تک تو خیرہت تھی لیکن علماء اور شیوخ سے نکل کر بات جب جاہل صوفیوں اور ان کے مریدوں تک پہنچی تو ایک طوفان بپا ہو گیا۔ جو لوگ پہلے ہی سے شریعت کی پابندیوں اور حدود و قیود سے گریزاں تھےان کے تو مزے ہو گءے۔ نماز نہ روزہ، حج نہ زکوٰۃ، خیر نہ شر جو جس کا دل چاہتا کر گزرتا۔

دو ڈھاءی سو برس یہی طوفان برپا رہا کوءی پوچھنے اور ٹوکنے والا نہ تھآ۔ حقیقتاّّ ان جہلاء میں سے ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ میں خدا ہوں اس لءے اعمال کی تمام حدود و قیود سے مطلقاّّ آزاد ہوں جو چاہوں سو کروں خدا کے لءے عذاب و ثواب چہ معنی۔ علماءے ظاہر اگر کبھی روکتے ٹوکتے بھی تو اُن کا مذاق اُڑایا جاتا اور اُن کو برا بھلا بھی کہا جاتا۔ مرے پر سو دُرے۔ زمانہ چلتے چلتے مغل بادشاہ اکبر کے عہد تک پہنچ گیا۔ یہ بادشاہ صرف نام کا مسلمان اور ابوالفضل و فیضی جیسے ”ہمہ اوستیوں” کا ذہنی غلام تھا اِس کی حکمت عملی ہی یہ تھی کہ رعایا کی اکثریت یعنی ہندوءوں کو خوش رکھا جاءےخواہ اسلام کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑَے۔ چنانچہ مسلمانوں کی ہر طرح دل شکنی اور ہندوءوں کی ہر طرھ ہمت افزاءی کی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ جزیہ موقوف اور ذبیحہ گاءو حکماّّ بند کر دیا گیا تھا اور اگر کوءی گاءے ذبح کر لیتا تو اس کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ بادشاہ کے گرد ایسے لوگ اکٹھے ہو گءے تھے جو وہی اورشریعت کے منکر تھے۔ بادشاہ خود علی الاعلان اسلام کی مخالفت کرتا اور احکامِ شرعہ کواحمقانہ بتاتا تھا۔ محلوں میں نماز اور اذان بند کر دی گءی تھی۔ کءی مسجدیں توڑ کر مندر بنا دی گءی تھیں۔ گاءے کا گوشت حرام اور سُور کا گوشت حلال قرار دیا گیا تھا۔ کُتے اور سُور مظہر الٰہی سمجھے جاتے تھے۔ بادشاہ کے سامنے احمد[ص]، محمد [ص]، اور مصطفیٰ [ص] جیسے نام لینا جرم تھا۔ استغفراللہ۔ اُس وقت کے مفصل حالات کے لءے ”منتخب التواریخ” پڑھنی چاہیے اِس چھوٹے سے رسالہ میں اِس سے زیادہ کی گنجاءش نہیں ہے۔

اکبر نے ویدوں اور اپانشدوں کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں کرایا۔ ان میں وحدت الوجود پہلے ہی سے موجود تھا اب کیا تھا گھر گھر وحدت الوجود کا ڈنکا بجنے لگا۔ جو کوءی اس کے خلاف آواز اُٹھاتا گردن زدنی قرار پاتا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اگر سارے ہندوستان میں نہیں تو کم از کم دربارِاکبری اور اس کے زیر اثر حلقوں میں تو اسلام عملاّّ ختم ہو گیا تھا اور جہاں باقی تھا جانکنی میں مبتلا تھا۔ الغرض بے دینی اور الحاد انتہا تک پہنچ چکا تھا کہ اکبر کا انتقال ہو گیا اور جہانگیر سریر آراءے سلطنت ہوا۔

جہانگیر نے ہندو ماں کی گود میں آنکھ کھولی۔ جن حالات میں ہوش سنبھالااور جس ماحول میں پرورش پاءی اُس کے پیش نظر ہم اس کے مذہبی خیالات اور دینی عقاءد کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ الحاد و لادینیت جو اس کو باپ سے ورثہ میں ملی تھی ویسے ہی جاری تھی بلکہ اس میں اور ترقی ہو رہی تھی . ایک دن چند مصاحبوں نے اُسے بتایا کہ ایک شخص جس کا نام شیخ احمد ہےاور جو اپنے آپ کومجددِ وقت بھی کہتا ہےسرہند سے اِس شہر میں وارد ہوا ہے وہ کہتا ہےکہ ”اے لوگوتم اور تمہارا بادشاہ سب کفر و ضلال میں مبتلا ہیں اور سیدھے دوزخ کی طرف جا رہے ہیں۔ اے لوگو جلدی واپس لوٹو۔ ان اقوال و اعمال مشرکانہ سے توبہ کرو اور قرآن کے دامن میں پناہ لو۔ورنہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہو گےاور جس طرح پہلے گمراہ قومیں تباہ ہو گءیں تم بھی تباہ ہو جاءو گے”۔ یہ سن کر بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو حاضر کیا جاءے۔ اس پر وزیر اعظم آصف جاہ نے کہا۔ جہاں پناہ اس شخص پر اس طرح ہاتھ ڈالنا مناسب نہیں۔ میں اس کے حالات سے واقف ہوں وہ بہت بڑاعالم دین اور ولی اللہ ہے۔ حضور کے بہت سے امیر اور فوج کے افسر اس کے مرید ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے اس کے مریدوں کودور دراز مقامات پر بدل دیا جاءے پھر اُس سے باز پُرس کی جاءے۔ اس پر بادشاہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں اور معتقدوں کو پایہ تخت سے دور دراز مقامات پر بھیج دیا ۔ اس کے بعد مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو دربار میں طلب کیا۔

مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے تشریف لانے پر جہانگیر نے ان سے چند سوالات کیے اور اُن کے معقول و مسکت جواب ملنے پر ان کو نہایت عزت و احترام سےواپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہ بات حاسد درباریوں کو بری لگی۔ اب اُنہوں نے دوسری طرح بادشاہ کے کان بھرنے شروع کیے۔ اُنہوں نے کہا، جہاں پناہ اس شخص کے ایک ہزار ہتھیار بند مرید ہیں۔ اس کے علاوہ حضور کے بڑے بڑے اُمراء اور فوجی افسروں میں بھی اس کے بہت سے مرید ہیں۔ اس طرح یہ کسی وقت بھی سلطنت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے علاوہ ازیں یہ اس قدر مغرور اور بے ادب ہے کہ اس نے آپ کوتعظیمی سجدہ بھی نہیں کیا۔ اس پر جہانگیر نے مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو دوبارہ طلب کیا اور حکم دیا کہ اِسے سجدہ کریں۔ مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ سجدہ اللہ کے سواءے کسی کو بھی کسی حالت میں جاءز نہیں۔ علاوہ ازیں اے بادشاہ تو مجھ جیسا ہی ایک مجبور و معذور انسان ہے تجھ کو سجدہ کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ بادشاہ اس بات پر سخت غضبناک ہوا اور مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا۔ جہاں وہ دو برس محبوس رہے۔ مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مرید امراء اور افسروں کو یہ بات معلوم ہوءی تو وہ سخت برافروختہ ہوءے اور مہابت خان نے جو اُس وقت افغانستان کا حکمران تھا ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ دریاءے جہلم کے کنارے دونوں لشکروں میں جنگ ہوءی جس میں مہابت خان کو فتح ہوءی اور اس نے جہانگیر کو قید کر لیا۔ اس کی خبر مہابت خان نے گوالیارمیں مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو دی اور دریافت کیا کہ اب بادشاہ کے لءے کیا حکم ہے۔ مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ بادشاہ کو چھوڑ دو اور پورے عزت اور احترام کے ساتھ دارالخلافہ جانے دو۔ اور اس کے فرمانبردار رہو۔ یہ تحریر بادشاہ کو دکھاءی گءی تو وہ مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا معتقد ہو گیا۔ اور ان کو آزاد کر کے اپنے پاس بلا بھیجا اور اپنا مصاحب بنالیا۔ اس کے بعد مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی باقی عمر دربار ہی میں گزری اور مرتے دم تک ترویج شریعت و سنت میں مصروف رہے۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے زیادہ جدوجہد وحدت الوجود کے خلاف کی کیونکہ ان کی دانست میں یہ عقیدہ ہی تمام براءیوں کی جڑ تھا۔ مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی تحریر و تقریر کا یہ اثر ہوا کہ حضرت ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ کے دلاءل و براہین بھی ماند پڑ گءے اور وجودیوں کا زور و شور ختم ہو گیا۔ اور ایک صدی تک کسی کی ہمت نہ ہوءی کہ تحریر یا تقریر میں مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے خلاف کچھ کہتا یا لکھتا۔ تقریباّّ پوری ایک صدی بعد حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک رسالہ لکھا جس کا نام فیصلہ وحدت الوجود والشہود ہےاس میں شاہ صاحب نے وحدت الوجود یا وحدت الشہود کی تاءید یا تردید میں کچھ نہیں لکھا بلکہ دونوں نظریات کی تطبیق کی ہے لیکن شاہ صاحب کے اس رسالہ کو کچھ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوءی بلکہ حضرت میر ناصررحمتہ اللہ علیہ، میر درد رحمتہ اللہ علیہ، اور مولوی غلام یحیٰ رحمتہ اللہ علیہ نے ولی اللہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے رسالہ کی تردید میں کتابیں لکھیں اور ثابت کیا کہ وحدت الوجود غلط اور وحدت الشہود درست ہے۔ اس موضوع پر غالباّّ سب سے آخری کتاب جناب مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھی ہے۔ جس کا نام ”التنبیہہ الطربی فی تنزیہہ ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ” ہے۔ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا کہ کونسا نظریہ درست ہے اُنہوں نے صرف یہ التزام کیا ہے کہ فصوص الحکم میں حضرت ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے جو اقوال شرع کے خلاف اور ہدف اعتراضات ہیں ان کو لکھ کر حضرت ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ ہی کی کتاب سے ان کے وہ اقوال تحریر کر دیے ہیں جو خلاف شرعہ اقوال کی تردید کرتے ہیں۔

الغرض ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہ سے اب تک سینکڑوں ہی کتابیں تاءید و تردید میں لکھی گءیں مگر کوءی قطعی فیصلہ نہ ہو سکا اور نہ ہو سکے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وحدت الوجود کوءی عقلی مسءلہ نہیں کہ فلسفہ یا علم الکلام کی طرح عقلی دلاءل سے ثابت یا رد کیا جا سکے۔ یہ مسءلہ کشف سے بھی حل نہیں ہو سکتاکیونکہ کشف شاذو نادر ہی صاف صاف ہوتا ہےورنہ اکثر اوقات تو رمز اور اشارہ کناءے میں ہوا کرتا ہے۔ وحدت الوجود تو آنکھ سے نظر آنے کی چیز ہےاور مشاہدہ روحانی ہی سے ثابت ہوتا ہے۔ یعنی سالک کو یہ دکھاءی دیتا اور یہی اس وقت مدرک ہوتا ہے کہ ساری کاءنات صرف ایک وجود ہے اور وہی خدا ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے اور”ھُو” کے سب سے نچلے طبقہ میں سالک پر وارد ہوتی ہے۔ اب جو سالک اُسی مقام پر رہ جاتا ہے آگے یعنی اور اوپر عرش کی طرف نہیں جاتااُس کے لءے یہ جگہ مُقام بن جاتی ہے ورنہ آگے جانے والوں کے لءے یہ ایک منزل ہے۔ اب ہوا یہ کہ جناب ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ جب اس جگہ پہنچے تو وہ ھُو کو ذات سمجھ بیٹھے اورخیال کیا کہ میں ذات بحت تک پہنچ گیا ہوں اور آگے جانے کا ارادہ نہ کیا یہیں رخت سفر کھول دیا۔ اب ان کا جتنا زیادہ عرصہ یہاں گزرا اتنا ہی ان کا یہ یقین پختہ ہوتا گیا کہ یہی ذات باری تعالیٰ ہے اور اس سے نیچے عالم مثال اور عالم مادی میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ اِسی ذات کی تجلیات یا شانیں ہیں اور ان سب کی اصل یہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ان کو عرفانی غلطی ہوءی اور اُنہوں نے ایک کیفیت کو حقیقت سمجھ لیا۔ اس بات کا ثبوت اُن کے ایک قول سے بھی ملتا ہے یعنی وہ فرماتے ہیں کہ ”اِس سے آگے عدم ہے اور عدم میں وحدت کی تلاش سے سواءے تکلیف و صعوبت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا”۔

برخلاف اِن کے جناب مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ جب اس منزل پر پہنچے تو وہ بھی یہی سمجھے کہ یہی ذات اور کاءنات کی حقیقت ہے لیکن وہ زیادہ عرصہ یہاں نہ ٹھہرے اور اوپر عرش کی طرف روانہ ہوءے۔ جب ھُو کے سب سے اوپر والے طبقہ میں پہنچےاور خدا کے احکام، مخلوق کی ارواح اور فرشتوں کو اوپر سے آتا دیکھا جو نیچے عالم مثال اور عالم مادی کی طرف جاتے ہوءےیہاں سے گزرتے ہیں تو اُنہوں نے خیال کیا کہ مخلوق ذات باری تعالیٰ کا ظل یا سایہ ہے لیکن جب اور اُوپر عدم میں پہنچے تو اُن کو اپنا خیال بھی غلط معلوم ہوا۔ اِس کے بعد انہوں نے عالم امر طے کیا عرش پر پہنچے اور ذات بحت کا مشاہدہ فرمایا تب اُن پر اصل حقیقت کھلی اور اُنہوں نے کہا کہ خدا اگرچہ کاءنات کی ہر شے میں موجود ہےلیکن سب سے الگ ہے یعنی اپنا بالکل الگ وجود رکھتا ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اُس کی مخلوق ہےاور یہی تعلیم قرآن کی بھی ہے۔ ان کے اس فہم و بصیرت کا ثبوت ان کے اس قول سے ملتا ہے کہ ”پہلے میں بھی وحدت الوجود کو مانتا تھا لیکن جب میں نے اور ترقی کی اور آخری مقام پر پہیچا تو مجھ پر اصل حقیقت کھلی اور مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا، خدا ہے اور مخلوق، مخلوق ہے دونوں الگ الگ دو وجود ہیں”۔ اِس سے زیادہ صاف لکھنے کی مجھ میں نہ تو ہمت ہے نہ لیاقت۔ قارءین کرام کی سمجھ میں اب بھی کچھ نہ آیا تو مجھے معاف فرماءیں اور آگے کتاب کا بغور مطالعہ فرماءیں جہاں یہ سب کچھ میں نے زیادہ صاف اور واضح طور پر تحریر کیا ہے۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنے متعلق چند سطور لکھوں اور بتاءوں کہ مجھے یہ سب کچھ لکھنے کا حق اور استعداد کس طرح حاصل ہوءی۔

میں ۱۹۱۱ء میں جب کہ میری عمر اٹھارہ سال تھی خاندان نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوا اور سات آٹھ سال کی سخت اور متواتر جدوجہد کے بعد نقشبندیہ سلوک پورا کر لیا۔ اِس سلوک سے طبعیت میں انکسار، تورع اور کشف و کرامات تو حاصل ہو گءیں لیکن جس مقصد کے لءے بیعت ہوا تھا وہ حاصل نہ ہوا یعنی رویت باری تعالیٰ حاصل نہ ہوءی۔ اس کے بعد خاندان چشتیہ میں بیعت کی اور پانچ چھ سال میں یہ سلوک بھی طے کر لیا۔ اِس سلوک سے طبعیت میں لطافت، اخلاق میں شیرینی، حسن اور جمالیات کا ادراک اور عشق و محبت کا سوز و گدازتو میسر آ گیالیکن رویت باری تعالیٰ یہاں بھی عنقاء ہی رہی۔ اس کے بعد اور کسی سلسلہ میں بیعت تو نہ ہوا مگر قادریہ اور دوسرے کءی سلسلوں کے سلوک کا مطالعہ بالاستیعاب کیا۔ لیکن رویت کے حصول کا وہاں بھی کوءی ذکر نہ تھا۔ اب میں خاموش ہو کر بیٹھ گیااور کسی لطیفہ غیبی کا منتظر رہا۔ آخر کاراللہ تعالیٰ نے رحم فرمایااور ایک بزرگ سے ملاقات کرا دی۔ یہ حضرت اویسی تھے نہ خود کسی سے بیعت تھےنہ بیعت فرماتے تھے اِس لءے بیعت تو نہ ہو سکا لیکن بیس پچیس سال اِن سے فیضِ کثیر ملتا رہا۔ اب میں فیض تو اِن سے لیتا تھالیکن ذکر و فکر وغیرہ اپنے پرانے سلسلے نقشبندیہ کا کرتا تھا۔ اِس مرتبہ سلوک عجیب طرح سے طے ہوا۔ یعنی ناسوت سے ذات بحت تک سارے راستے گردوپیش کے ماحول کو دیکھتا اور سمجھتا ہواگزرا یعنی پہلے دوزخ کے طبقات دیکھے پھر علی الترتیب اعراف، ملکوت، جبروت، لاہوت اور ہاہوت کی جنتوں کی سیر کرتا ہوا ھُو کے نچلے طبقے میں داخل ہوا۔ یہاں مجھ پر وحدت الوجود کی کیفیت طاری ہوءی۔ یہ وہی کیفیت ہے جس کو جناب ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ صاحب نے حقیقت فرمایا ہے۔ الحمدللہ کہ میں نے یہاں زیادہ قیام نہیں کیا ورنہ میں بھی وجودی ہو کر رہ جاتا۔ جب میں ھُو کی اوپر والی سطح پر پہنچا تو وہاں یہ کیفیت نظر آءی جس کو مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ظِلیت کہا ہے۔ یہاں سے بھی جلدی ہی نجات مل گءی۔ اِس کے بعد میں کچھ عرصہ عدم میں رہا لیکن برابر آگے بڑھتا رہا۔ حتیٰ کہ عدم کو پار کر کے عالم امر میں داخل ہوا اور آخر کار ۲۶۔ ۲۷ برس کی متواتر کوشش کے بعد ۱۹۵۳ء میں اپنے مقصود حیات سے ہمکنار ہوا۔ الحمدللہ، جو چاہتا تھا مل گیا۔

یہ جو کچھ میں نے لکھا ہے بخدا اِس لءے نہیں لکھا کہ پڑھنے والوں پر اپنی بزرگی اور رُوحانیت کا رُعب ڈالوں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وحدت الوجود کی حقیقت بغیر مشاہدے کے معلوم نہیں ہو سکتی اِس کو وہی شخص اچھی طرح بیان کر سکتا ہے جس نے خود دیکھا اور سمجھا ہو۔ حضرت ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اِس لءے میں مجبور تھا کہ قارءین کو وحدت الوجود کی حقیقت کما حقہُ سمجھانے کے لءے وہ بھی لکھ دوں جو میں نے دیکھا اور سمجھا ہے۔ اِس سے کم یا زیادہ میری اور کوءی غرض نہیں ہے۔ میں نام و نمود اور شہرت سے کوسوں دُور بھاگتا ہوں اور سچ تو یہ ہے کہ میں اگر اِس چیز کا طالب ہوتا تو ذات بحت تک پہنچ ہی نہ سکتا راستہ ہی میں رہ جاتا۔

دوسری وجہ اپنا حال لکھنے کی یہ بھی ہے کہ دورانِ سلوک میں جو میں ہر قسم کے صوفیوں اور فقیروں کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا تو وہاں مجھ کو بڑی بڑی عجیب معلومات حاصل ہوءیں۔ میں نے ہر طرح اور ہر رنگ کے فقیر اور درویش دیکھے مثلاّّ قلندر، ملنگ، رِند ولی، رقص و سرورکے رسیا، مءے ناب کے متوالے اور خصوصاّّ رسول شاہی جو نماز روزے کو منع کرتے اور شراب اور چرس وغیرہ کو جاءز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گناہ ثواب وغیرہ کوءی شے نہیں ہیں۔ شروع میں تو میں اِس بات پر بہت حیران ہوا کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ خلاف شرع افعال بھی کرتے ہیں اور اِن سے کشف و کرامات بھی سر زد ہوتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ وجودی یعنی وحدتُ الوجود کو حق ماننے والے ہیں۔ مزید تحقیق سے مجھ پر کھلا کہ یہ لوگ اسلامی تصوف اور فقر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ ہندوءوں کے یوگ اور دوسری مشقوں کے ذریعہ روحانی طاقت پیدا کر لیتے ہیں۔

علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تصوف میں جو گند بعد کی صدیوں میں مل گیا ہے۔ اِس کا حال بھی مجھے معلوم ہو گیا اور اللہ کریم و کارساز نے صحیح قرآنی تصوف کا علم بھی مجھ کو عطا فرما دیا۔ یہ سب کچھ جان لینے کے بعد میں نے اِس بات کو اپنا فرض خیال کیا کہ اصل حقیقت اور سچ کو بے نقاب کر دوں۔ اِسی غرض سے میں نے ”تعمیر ملت” لکھی جس سے راہِ خدا کے طالبوں کو بے اندازہ فاءدہ ہوا اور ہو رہا ہے۔ زیر نظر کتاب ”حقیقت وحدتُ الوجود” بھی میں نے اسی نیت سے لکھی ہے کہ متلاشیانِ حق غلط راہ پر پڑ کر گمراہ نہ ہونے پاءیں۔ یہ کتاب عالم فاضل لوگوں کے لءے نہیں بلکہ عوام کے لیے لکھی گءی ہے اسی لیے فلسفہ علم الکلام اور تصوف کی ادق اور مغلق ناممکن الفہم اصطلاحات سے پاک ہے۔

آخر میں یہ اور عرض کر دوں کہ میں ایک بہت ہی عاجز و درماندہ، مجبور و معذور، گنہگار اور خطا وارانسان ہوں۔ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں ہوں نہ کوءی اور دوسری خوبی مجھ میں ہے۔ اِس پر بھی میرے آقا اور میرے پروردگار نے جو بیحد و شمار نعمتیں مجھے عطا فرماءی ہیں میں ہر گز ان کا مستحق اور اہل نہ تھا لیکن جس کو پیا چاہے وہی سہاگن ہے۔ سچ ہے۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خداءے بخشندہ

[ابتداءیہ اّز کتاب ”حقیقت وحدت الوجود” مصنف: حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاری رحمتہ اللہ علیہ بانی سلسلہ عالیہ توحیدیہ]